SAHIBZADA SULTAN MUHAMMAD ALI.
logo
logo

Introduction - SAHIBZADA SULTAN

انٹرویو:صاحبزادہ سلطان

ہارس پاورمیگزین نےاپنےقارئین کومختلف کھلاڑیوں کی شخصیت اور موٹر ریس سےمتعلق ان کی آراء سےمتعارف کروانےکےلئے انٹرویوز کاسلسلہ شروع کیا ہے۔ میگزین کے پہلے شمارہ میں جس شخصیت کا انٹرویو شامل کیا گیا ہے وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ان کا تعلق ایسے بزرگ صوفی سے ہے جن کی "ھُو"کی پکار دُنیا میں محتاجِ تعارف نہیں ۔ حضرت سلطان باھُو کی دسویں پشت سے صاحبزادہ سلطان محمدعلی ایک عظیم روحانی شخصیت و روحانی پیشوا ہونے کیساتھ ساتھ پاکستان میں نوجوانوں کی بہتر تربیت اور اُن میں ’’رئیل لائف چیلنجز‘‘ سے نبرد آزما ہونے کیلئے کھیلوں کے فروغ کی نہ صرف تائید و تاکید کرتے ہیں بلکہ اس کا ہتمام بھی کرتے ہیں دربارِ عالیہ حضرت سُلطان باھُو پہ قائم کر دہ ’’ایس بی سکول سسٹم‘‘ اور دینی درس گاہ کے طلبا کیلئے وسیع و عریض اور شاندار ’’ملٹی پَل گیمز‘‘ گراؤنڈ اس کی بھر پور عکاسی کرتا ہے ۔ نوجوانوں کو صحت افزا ایکٹیویٹیز کی تلقین فرماتے ہیں تاکہ ہماری آئندہ نسل کھیلوں میں دلچسپی کیوجہ سے جرائم و منشیات سے دور رہے ۔ گھڑ سواری ، نیزہ بازی ، گھوڑا چال اور گھوڑوں کی دیگر روایتی کھیلوں کے فروغ میں بھی آپ ہمیشہ سرپرستی فرماتے ہیں ۔ آپ پاکستان میں موٹر سپورٹس سے بھی خاصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ خاص کر پاکستان کے دور دراز دیہی علاقوں کی خوبصورتی کو عالمی سطح پہ اُجاگر کرنے کیلئے ’’آف روڈ جیپ ریلی‘‘ میں شرکت کرتے ہیں اور کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہیں ۔ آف روڈ جیپ ریلی میں بطورِریسرشرکت کرنے سے پہلے وہ پاکستان کےمشہور گھڑسواربھی رہےہیں جبکہ آف روڈ ریلی میں انہوں نے بہت ہی کم عرصے میں اپنی کامیابی کاسکہ منوایا ہے اور پاکستان میں منعقد ہونے والی ریلیز میں ٹائٹل وصول کرکےچمپین کااعزاز اپنے نام کیا – صاحبزادہ سلطان محمد علی،آف روڈ ریلی کی مناسبت سے 'صاحبزادہ سلطان' کے نام سے جانے جاتے ہیں اور ان کی ٹیم کو ’’ٹیم سُلطان‘‘ کہتے ہیں ۔ پاکستان میں موٹر سپورٹس کے ستارے صاحبزادہ سُلطان کو اُن کی ذہانت ، اہلیت اور صلاحیت کی بھر پور داد و تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں ’’Quick learner‘‘ کہتے ہیں ۔

Sahibzada Sultan

چولستان، گوادر، تھل ،ہب اورایبٹ آباد ریلیز کےچیمپئن صاحبزادہ سلطان سےمیگزین ہارس پاورٹیم نے خصوصی انٹرویو کیا جس کی تفصیل درج ذیل ہے:


سوال :آپ کو ریلی کا شوق کیسے لگا؟

جواب : ہمارے خانوادےمیں بچپن ہی سےگھڑسواری کی تربیت دی جاتی ہےاور گھوڑوں سےمجھے ذاتی طورپرکافی لگاؤ ہے ۔ نیزہ بازی میں کافی عرصےتک باقاعدگی سےحصہ لیتا رہا۔ پاکستان کےتقریباً جتنےبھی نیزہ بازی کے بڑےمقابلےمنعقدہوتےہیں ان تمام میں شرکت کرتارہا۔مختلف میدانوں میں فتوحات حاصل کیں۔نیزہ بازی میں مختلف لیول کےایوارڈزبھی حاصل کئے۔جس کے بعد مجھے اتفاقاََچولستان ریلی دیکھنےکاموقع ملا، وہاں پر کافی اچھی گاڑیاں اوراچھےڈرائیورز کو دیکھنے کا موقع ملا ،خاص طور پر میر نادر مگسی صاحب کی گاڑی جتنے اچھے طریقے سے ریس کے لئے تیار (Prepared) تھی اورجس کمال مہارت سے وہ ڈرائیو کرر ہے تھے آپ کہہ سکتے ہیں میری ریس میں آنے کی یہ ایک وجہ تھی۔ میں نے سمجھا یہ ایک ایسا کھیل ہے جس سےپاکستان کےخوبصورت صحرا، میدان، پہاڑ،country side، دیہی علاقےاورفطرتی خوبصورتی ہم پوری دنیاکودکھاسکتےہیں۔بنیادی طورپریہی ایک جذبہ تھاکہ پاکستان کا نام پوری دنیا میں متعارف کروا سکوں جسکا یہ ایک بہترین ذریعہ ہے۔ چولستا ن جیسےدورافتادہ علاقےمیں جہاں پر عام لوگوں کی رسائی ممکن نہیں اورمقامی لوگوں کا رابطہ (interaction) اُن لوگوں سے نہیں ہوپاتا،لیکن ایسی ریلیز کے انعقاد سےنہ صرف پاکستان بھر سے آئے ہوئے لوگوں کے ساتھ مقامی لوگوں کا interaction ہوجاتا ہے بلکہ عالمی سطح پہ پاکستان میں سیاحت (tourism) کو بھی فروغ ملتا ہے۔وہاں پرتاریخی مقامات اورقلعے ہیں جن کو دیکھنے کےلئے لوگ آتے ہیں اوریوں مقامی لوگوں کو روزگار کےمزیدمواقع میسرآتےہیں۔ اِس لئے مجھے اس میں یہ خُوبی نظر آئی کہ اِس کھیل کے ذریعے پاکستان کا سافٹ امیج دُنیا بھر میں نمایاں کیا جا سکتا ہے ۔

سوال:ماضی میں گھڑا سواری کی اور پاکستان کا سب سے بڑا نیزہ باز کلب متعارف کروایا ، اب آپ بطور سوار اور ریسر میں کیا فرق دیکھتے ہیں ؟

جواب: اگر وسیع پیرائے میں دیکھا جائے تو گھڑسواری کا اپنا مزہ ہے۔ گھڑ سواریہ چیز سمجھ سکتے ہیں کہ گھڑسواری کی خوبصورتی اور دورانِ سواری جواحساسات و جذبات ہوتے ہیں وہ ممکن ہے دوسری کھیلوں میں نہ ہوں ۔ ذاتی حیثیت میں ایک بات اکثر کہتا ہوں کہ کتنی ہی خوبصورت گاڑی سامنے سے گزرے میں اُسے مڑ کر یا رُک کر نہیں دیکھتا لیکن ایک اوسط درجے کا خوبصورت گھوڑا ہی کیوں نہ ہو اُسے غور سے دیکھتا ہوں ، اعلیٰ درجے کے خوبصورت گھوڑے کی تو مثال ہی اور ہے ۔ گھوڑے کا متبادل کوئی اور سواری نہیں ہو سکتی ۔ میں بذاتِ خوددونوں چیزوں کو مشن کے طور پر دیکھتاہوں گھڑا سواری کواس لئے کہ جو ہماری ثقافت اورروایات ہیں انہیں متعارف کروا سکیں۔ گھڑاسواری کاکلچرمسلمانوں میں کئی سو سال سے چلا آرہا ہےجوسنت رسول کریم ﷺ بھی ہے اور صحیح بخاری میں حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم یہ ہےکہ "قیامت تک گھوڑے کی پیشانی میں برکت اور بھلائی رکھ دی گئی ہے"۔لیکن مجھے گھڑ سواری کے دوران پیدا ہونے والے ایک میڈیکل ایشو کی وجہ سے گھوڑا دوڑانے سے منع کیا گیا ۔ لہٰذا ایک صحت افزا سرگرمی کو جاری رکھنے کیلئے میرے لئے متبادل یہی تھاکہ میں ایک ایسا کھیل اپناؤں جس سےپاکستان کانام روشن کرسکوں ، دُنیا کو پاکستان کی حقیقی اور معتدل تصویر دکھا سکوں اور اِس ارضِ پاک کے اندر ایک مثبت سرگرمی کو فروغ دے سکوں ۔ یہ ایک بڑی زبر دست اورمنفردچیز ہے۔ جب آپ یہ احساسات سمجھیں کہ یہ آپ اپنے ملک کےلیے کر رہے ہیں تو پھر کوئی بھی چیزآڑےنہیں آسکتی ۔ اس میں ذاتی طورپربڑا Motivatedہوں کیونکہ اسے میں ایک مشن سمجھ کےکررہاہوں جیسےصوفیاء کا طریق رہا ہے۔ آپ حضرت معین الدین چشتیؒ کودیکھیں انھوں نےاُس وقت کے پیشِ نظربرصغیر میں قوالی اور موسیقی کو اپنایا کیونکہ یہاں جولوگ باقی مذاہب سےتعلق رکھتےتھے ان کا موسیقی سے لگاؤ تھا توآپؒ انہیں موسیقی کےذریعےقریب لاتےاورپھرانہیں اپنی وعظ ونصیحت سےاسلام اور اخلاقِ حسنہ کی طرف راغب کرتے ۔ دُنیا کو پر امن پاکستان کی تصویر ایسی ہی مثبت اور جدید سرگرمیوں کے ذریعے دِکھائی جا سکتی ہے ۔ اس لئے اس کوہم ایک مشن کے طورپربھی سمجھتے ہیں کیونکہ آج کل دُنیا بھر میں نوجوانوں کا زیادہ رجحان موٹر سپورٹس کی طرف ہے تواس ذریعے سےہم اپنا پیغام ان تک پہنچا سکتےہیں جوشایدعام صورت میں ممکن نہیں ۔

Sahibzada Sultan

سوال:دورانِ ڈرائیو حفاظتی اقدامات پر آپ کتنا یقین رکھتے ہیں اور کس حد تک پابندی کے قائل ہیں۔

جواب:کوئی بھی کھیل ہواسکے کچھ متعین کردہ قوانین ہوتےہیں اور آپ کو ان کی پابندی کرنی چاہیے۔ اسی طرح موٹر سپورٹس کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہیں جن کی پابندی ضروری ہے۔حفاظتی نقطہ نظر سےخاص طورپربہت سی چیزیں ہیں جن پرعمل کرنا ضروری ٹھہرتاہے۔پا کستان میں ریسرز کے مابین باقاعدہ طور پر کچھ رولز متعین ہیں اور ارتقائی مراحل سے ان میں مزید بہتری لائی جارہی ہے۔ہماری بڑی ریسسزمیں ان قوانین پرعمل کئے بناءشرکت کی اجازت نہیں دی جاتی جن میں چولستان، جھل مگسی، گوادراور تھل جیپ ریلی شامل ہیں ۔ حفاظتی اقدامات کو اپنائےبنااوررولزپر عمل کئے بغیریہ اجازت نہیں دی جاتی کہ آپ ریس میں شامل ہوں کیونکہ آپ اس قدر سپیڈ میں ہوتے ہیں کہ اگرگاڑی میں رول کیج نصب نہ ہویا آپ نے ہلمنٹ نہ پہن رکھا ہو یاآپ نے ہارنس (Harnesses)جو سپیشل ریسنگ بیلٹ ہوتے ہیں ، نہ لگائے ہوئے ہوں توخدا نخواستہ کسی بڑے حادثے کا شکار ہوسکتے ہیں لہٰذاتمام اقدامات کو حفظِ ما تقدم کے طور پر ہرصورت اپنانا چاہیے ۔ بے شک زندگی اور موت اللہ پاک کے قبضہ قدرت میں ہےلیکن اگرآپ پوری طرح سےحفاظتی اقدامات اپنالیں حتیٰ کہ عام زندگی میں ٹریفک قوانین کےمطابق گاڑی چلائیں تورسک لیول .1%0رہ جاتاہے۔بعینہٖ اگرریس میں تمام حفاظتی اقدامات اپنائیں تو آپ کی حفاظت کےلئےبہت زیادہ معاون ہوتےہیں اور شدید حادثہ کی صُورت میں بھی جانی نُقصان کا خدشہ کم ہوتا ہے ۔

سوال :آپ اس میگزین کو کیسے دیکھتے ہیں کہ اس سے موٹر سپورٹس کو کتنی ترویج ملے گی؟

جواب: سب سے پہلے تو اس پہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ پاکستان کے ’’سافٹ امیج‘‘ کے فروغ کیلئے اس نے ایک ایسا خیال ذہن میں پیدا کیا ۔ اس کے بعد ’’ٹیم سُلطان‘‘ کے تمام ممبرز کو مبارک باد دینا چاہوں گا جن کی معاونت اور کوشش سے اس میگزین کا اجرا ممکن ہوا ۔ یہ میگزین یقیناََموٹر سپورٹس اور اس کے فروغ کےلئے معاون ثابت ہوگا۔اور جس دلگی سے ہارس پاور میگزین کی ٹیم کام کر رہی ہے مجھے امید ہے کہ یہ نہ صرف اس کھیل کے فروغ کےلئے بلکہ پاکستان کا ایک خوبصورت امیج متعارف کروانے کےلئے بھی معاون ثابت ہوگا۔ اس شعبہ میں مزیدبھی عملی اقدامات اُٹھانےکی ضرورت ہے۔میری دعائیں اور نیک تمنائیں ٹیم کے ساتھ ہیں۔

سوال:کیا آپ کو حکومتِ پاکستان سےکوئی ریلی بین الاقوامی سطح پرمتعارف کروانےکی توقع ہے؟

جواب:پاکستان کی ریلیز میں بین الاقوامی ریسرز وقتاََ فوقتاََحصہ لیتے رہتے ہیں۔ حالیہ ریسسزمیں تھائی لینڈ سے مسٹرکنگ اوران کے ساتھی دوستوں نےشرکت کی۔ اسی طرح کینیاکے ایک ریسر ہیں جوگزشتہ دوسال سےحصہ لے رہے ہیں۔جھل مگسی اور گوادر کی ریسز میں ایران کے ریسرزحصہ لیتے رہتے ہیں ۔مجھےامید ہے کہ جس طرح یہ کھیل ترقی کی منازل طے کررہا ہےان شاءاللہ باقی ممالک سےبھی ریسرزاس میں حصہ لیں گے۔یہ حقیقت ہے اگردیگرممالک سے ریسرزحصہ لیں گے تووہاں کے شائقین بھی متوجہ ہوں گے۔ یہ قدم نہ صرف اس کھیل کےلئے معاون ہوگابلکہ سیرو سیاحت کےلئے بھی بہترثابت ہوگا۔حکومت کو یقیناََ اس کےلئے کچھ کام کرنے کی ضرورت ہےجو بھی ممکنہ طریقہ کار ہے اس کو مزید آسان کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کے سپورٹس سے متعلقہ اداروں میں اس حوالے سے ایک ڈیسک بنانے کی ضرورت ہے جو موٹر سپورٹس خاص کر آف روڈنگ کودیکھے اورباہر کے ریسر زکی ممکنہ مددکریں اورپاکستان کے اُن ریسر زکی بھی جوبین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کرنا چاہیں۔

Sahibzada Sultan